مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے خبر دی ہے کہ جرمنی، فرانس، انڈونیشیا، لیکٹنسٹائن، منگولیا اور جنوبی افریقہ کے وزرائے خارجہ نے منگولیا کے شہر اولانبتار میں ایک اجلاس میں طالبان کی افغان خواتین پر عائد پابندیوں کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اجلاس کے بیانیے میں کہا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں خواتین کی مکمل، مساوی، سنجیدہ اور محفوظ شرکت چاہتے ہیں۔
اس بیانیے میں طالبان سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں اور اقدامات کو فوری طور پر روک دیں جو خواتین کو ان کے بنیادی حقوق بشمول تعلیم اور ملازمت، نقل و حرکت کی آزادی اور عوامی زندگی میں سنجیدہ شرکت سے محروم کرتی ہیں۔
مذکورہ ممالک کے وزرائے خارجہ نے تمام عالمی اداروں اور ممالک سے بھی کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد پر افغان خواتین کے خلاف طالبان کی سخت پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل "انٹونیو گوٹریش" نے اس تنظیم کے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ افغانستان جیسے ممالک میں خواتین کے حقوق کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کے خاتمے کے باعث خواتین اور لڑکیاں عوامی زندگی سے خارج ہو چکی ہیں اور وہ صنفی مساوات سے مکمل محروم ہوچکی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کی وزارت تعلیم نے گذشتہ سال فروری میں افغانستان کی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے نجی اداروں کو حکم نامہ جاری کر 2023 کے داخلے کے امتحان میں لڑکیوں کی رجسٹریشن پر پابندی کا اعلان کیا تھا۔
مزید یہ کہ طالبان نے پچھلے سال 24 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں میں خواتین کی ملازمتیں اطلاع ثانوی تک معطل کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کی وزارت تعلیم نے ایک خط میں افغانستان کی تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو حکم دیا کہ اس ملک میں خواتین کو " اطلاع ثانوی تک" یونیورسٹیوں میں تعلیم جاری رکھنے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
طالبان کے اس اقدام کے بعد اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ افغان خواتین کی ملازمت پر پابندی لگائے جانے کی صورت میں افغانستان کو اقوام متحدہ کی امداد سے محروم ہونا پڑے گا۔
آپ کا تبصرہ